Safar Zafar

شاندار کردار Integrity

کیا آپ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟
یمین الدین احمد

اگر آپ اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، گرو کرنا چاہتے ہیں، اس دنیا میں اپنا وقت ختم ہوجانے پر جانے سے پہلے ایک بھرپور اور بامقصد زندگی جینا چاہتے ہیں۔۔۔

اگر آپ بھی امت کے حالات کو دیکھ کر غمزدہ ہوتے ہیں۔۔۔

اگر آپ معاشرے میں پھیلی ہوئی بے چینی اور بے اطمینانی دیکھ کر خود بھی بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔۔۔

اگر آپ معاشی اور مالی طور پہ خود کفالت کی منزلوں پر پہنچنا چاہتے ہیں۔۔۔

اگر آپ اپنی اگلی نسل بلکہ نسلوں کے اندر بہتری دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔۔۔

تو یہ بہتری خود بخود نہیں آئے گی۔

کیا آپ جانتے ہیں کوئی بھی نظام کیوں کامیاب اور ناکام ہوتا ہے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام جس کو ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ ایک “مکمل نظام حیات” ہے، تو یہ شاندار اور مکمل نظام حیات ثمر بار کیوں نہیں ہورہا؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ حفاظ اور سب سے زیادہ علماء پیدا کرنے والا ملک ہے!

کیا آپ کو معلوم ہے کہ دینی مدارس کا سب سے بڑا نیٹ ورک پاکستان میں ہے!

کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ دعوتی اور دینی تنظیمیں، تحریکیں اور جماعتیں پاکستان میں ہیں!

کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں ہر گلی، محلے، مسجد، مدرسے میں دروس قرآن اور علماء کے بیانات کرنے کی مکمل آزادی ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں دین کی دعوت اور تبلیغ کا کام مختلف جماعتوں، تنظیموں اور تحریکوں کے پلیٹ فارمز سے مستقل چلتا رہتا ہے۔

آپ پاکستان میں جس جگہ بھی رہتے ہیں، غالب امکان ہے کہ آپ کے آس پاس ایک سے زیادہ مساجد بآسانی آپ کی دسترس میں ہوں گی، اور آپ کو ہر نماز کے لیے ایک سے زائد اذانوں کی آواز آتی ہوگی۔۔۔

پھر کیا وجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اور معاشرہ مستقل تنزلی کی طرف گامزن ہیں؟

اس کی وجہ ہے۔۔۔۔۔ ہمارے سسٹم یعنی دین یعنی اسلام یعنی ہمارے نظام حیات کی ناکامی!

ارے ارے، ناراض نہ ہوں! غصہ نہ ہوں!

پوری بات سمجھیں۔۔۔

فرض کریں آپ کے پاس ایک بہت ہی زبردست گاڑی ہو، مثلا” آپ کے ایک بہت ہی زبردست مرسڈیز کار ہو اور آپ یہ مانتے ہوں کہ مرسڈیز ایک شاندار کار ہے۔

اگر مرسڈیز ایک بہترین کار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا پورا نظام بہت زبردست ہے جو آپ کو ویسی ڈرائیو دیتا ہے جیسی کہ آپ کو چاہیے۔

مختلف حالات میں، مختلف جگہوں پر ڈرائیو کرنے کے لیے اس کے اندر مختلف modes موجود ہیں۔ تمام پارٹس انتہائی اعلٰی کوالٹی کے ہیں جو اس کے بہترین ہونے کی ضمانت ہیں۔

لیکن آپ یعنی جس کے پاس یہ زبردست گاڑی ہے، وہ اس گاڑی کو ان اصولوں اور ضابطوں کے مطابق نہیں چلاتا کہ جس کے مطابق کمپنی نے بتایا ہے کہ آپ چلائیں۔

تو اب آپ کو یہ زبردست گاڑی وہ سہولت فراہم نہیں کرے گی، جس کی یہ اہل ہے۔ تو مسئلہ گاڑی کا نہیں ہے، چلانے والے کا ہے۔

اگر آپ یہ مثال سمجھ گئے ہیں تو یہ بات جان لیں کہ اسلام گو کہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ ہمیں زندگی ہر گوشے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

لیکن ہم، یعنی اس کو برتنے والے، جن پر اس سسٹم کو ٹھیک طریقے سے چلانے کی ذمہ داری ہے، ہم اس سسٹم کو ان اصولوں اور ضابطوں کے مطابق نہیں چلا رہے جس کی سسٹم ڈیمانڈ کرتا ہے۔

مساجد، مدارس، دعوتی تحریکیں، تبلیغ دین، دروس قرآن، بیانات، اجتماعات، علماء، حفاظ، اساتذہ۔۔۔۔۔۔

سب کچھ ہونے کے باوجود ہم مستقل فیل ہورہے ہیں، تنزلی کی رفتار تیز تر ہے، انفرادی اور اجتماعی حیثیتوں میں ہم اس طرح سے آگے نہیں بڑھ پا رہے جیسے کہ بیشمار اور قومیں بڑھ رہی ہیں بلکہ ہم سے میلوں آگے نکل چکی ہیں۔

کوئی بھی سسٹم اپنی کامیابی کے لیے اس سسٹم پر یقین رکھنے والوں سے انٹیگرٹی مانگتا ہے۔

انٹیگرٹی Integrity انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں “سالمیت” یعنی ہر کام اور ہر ذمہ داری کو اس کے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق انجام دینا چاہے حالات آپ کے غیر موافق ہی کیوں نہ ہوں۔

اس کو مکمل امانتداری اور دیانت کے اعلٰی اصول بھی کہا جاسکتا ہے۔

اگر آپ سڑک پر ڈرائیو کر رہے ہیں تو ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کریں گے چاہے اور لوگ نہ کررہے ہوں، تو کہا جائے گا کہ یہ انٹیگرٹی ہے۔

آپ کے گھر کے لیے یو ٹرن لینا ہے لیکن وہ دو کلو میٹر آگے ہے تو آپ دو کلومیٹر جائیں گے اور اپنی گلی یا محلے سے 400 میٹر پہلے والا یو ٹرن لیکر تھوڑا سا رونگ سائیڈ جانے کی بالکل کوشش نہیں کریں گے۔ تو یہ انٹیگرٹی ہے۔

آپ نے کسٹمر سے وعدہ کیا ہے لیکن اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے آپ کو رات دیر تک کام کرنا پڑے گا، اپنی نیند قربان کرنی پڑے گی، اور اگر آپ اپنی اس کمٹمنٹ کے لیے ایسا کرتے ہیں اور ہر بار ایسا کرتے ہیں، تو یہ انٹیگرٹی ہے۔

آپ نے اپنے بچے سے یہ کہا ہے کہ میں آج شام 6 بجے گھر آؤں گا اور آپ کو پارک لیکر جاؤں گا لیکن اگر آپ 6 بجے نہیں پہنچ پا رہے تو بچے کو کال کرنا، اسے صورتحال بتانا اور نیا دن اور وقت طے کرنا، یہ انٹیگرٹی ہے۔

آپ نے کسی کلائینٹ سے ایک معاہدہ کرلیا ہے اور کرنے کے بعد علم ہوا کہ آپ نے پرائس کم بتادی ہے اور اب کلائینٹ اس کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہورہا ہے، تو اسی پرائس پر، نقصان میں پورا کام ڈلیور کرنا، یہ انٹیگرٹی ہے۔

اگر وہ کلائینٹ آپ ہیں اور آپ کے علم میں ہے کہ سامنے والے نے پرائس کم بتادی ہے اور یہ کام اس پرائس میں نہیں ہوتا ہے، تو اپنے وینڈر کو خود آگے بڑھ کر بتانا کہ آپ پرائس ایک بار پھر دیکھ لیں اور اس کو بڑھائیں کیونکہ میرے تجربے کے مطابق آپ کم بتا رہے ہیں۔ یہ انٹیگرٹی ہے۔

آپ سے دفتر میں کام کرتے ہوئے ایک غلطی ہوگئی ہے جس سے ادارے کا نقصان ہوجائے گا لیکن ابھی کسی کو پتا نہیں ہے۔ بعد میں نقصان سامنے آئے گا لیکن یہ بات معلوم نہیں ہوگینکہ کس کی غلطی سے یہ نقصان ہوا۔ ایسی صورت میں اپنی غلطی بتا دینا اور اس پر معافی مانگنا یا وہ نقصان پورا کرنا، یہ انٹیگرٹی ہے۔

میں سینکڑوں مزید مثالیں دے سکتا ہوں۔

اب ہمارا نظام حیات دیکھیے جیسے کہ ہم اس کو برتتے آئے ہیں۔

ہم نے اپنے نظام حیات کو نہ اس طرح سے سمجھا ہے، نہ ہمیں اس طرح سے سمجھایا گیا ہے، اور نہ ہی ہم اس طرح سے اس نظام پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔

ہم سب مسلمان ہیں۔ مساجد میں، مدارس میں، دینی تحریکوں میں، تعلیمی اداروں میں، سرکاری اداروں میں، کاروباری اداروں میں، گھروں اور خاندانوں میں۔۔۔۔۔ ہر جگہ ہم مسلمان ہی تو ہیں۔

لیکن ہماری انٹیگرٹی زبردست طریقے سے کمپرومائز ہوچکی ہے۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی ہمارا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔

ہمیں یہ بیماری دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر چکی ہے۔

ہمیں ایک شدید قسم کی کردار سازی پر مبنی تحریک کی ضرورت ہے۔ گھروں میں، دفاتر میں، مساجد میں، مدارس میں، جامعات میں، بازاروں میں، سڑکوں پر، غرضیکہ ہر ہر جگہ۔۔۔

آپ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ڈیزائن دیکھ لیجیے۔۔۔۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی نبوت کے اعلان سے پہلے حضور کو اسی مکہ کے معاشرے نے دو القابات دے دیئے تھے۔

1۔ صادق الوعد (جو کثرت استعمال کی وجہ سے صادق کہلایا جانے لگا)
3۔ الامین

یہ کردار کی کون سی صفات ہیں؟ ان صفات سے کیا پیدا ہوتا ہے؟

انٹیگرٹی۔۔۔۔۔ Integrity

اللہ نے نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے کردار کا اعلان کروایا۔ پورے مکہ میں ایک بھی شخص نہیں تھا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے صادق اور امین ہونے کا انکار کر سکے۔

بدترین دشمن بھی یہ بات مانتے تھے۔

تو جس نے 40 سال میں ایک جھوٹ نہیں بولا۔۔۔۔
ایک وعدہ نہیں توڑا۔۔۔۔
ایک امانت میں خیانت نہیں کی۔۔۔۔

وہ آج اچانک اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول دے گا؟

اور یہی وہ شاندار کردار کی صفات تھیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے صحابہ میں منتقل کیں۔

آج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی چیز وعدہ اور امانت ہے۔ جب چاہو توڑ دو، جب چاہو خیانت کردو۔ جھوٹ تو ہماری گھٹی میں جیسے پڑ گیا ہے۔

بلکہ پچھلے 22 سالوں کے ٹریننگ، کنسلٹنگ اور کوچنگ کے تجربے کے بعد میں پورے یقین سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہم لوگوں کو وعدوں اور امانتداری کا مکمل فہم ہی حاصل نہیں ہے۔

پھر مزید یہ کہ سیکھنے اور عمل کرنے کی جستجو بھی تقریبا” ختم ہوگئی ہے۔

ہم میں سے تقریبا” ہر شخص ہر چیز کا ماہر ہے اور ہمیں ہر بات معلوم ہوتی ہے۔

آج کل جب علماء سے بات ہوتی ہے یا کسی بھی جگہ بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارا پورا نصاب تعلیم چاہے اسکولوں کا ہو، مدارس کا ہو یا گھروں میں ہو۔۔۔ اس کو زبردست قسم کی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔

لیکن یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی جگہ اہل حکم سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

ہم انجینئرز اور ڈاکٹرز بنا رہے ہیں لیکن کردار کے بغیر۔۔۔۔۔ آپ میں سے کئی خواتین و حضرات کو یہ تجربہ ہوگا۔

ہم MBAs نکال رہے ہیں لیکن بنیادی اخلاقی اوصاف کے بغیر۔

آپ اکثر تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا حال دیکھ لیجیے۔۔۔۔ کردار کی اعلٰی صفات سے عاری۔

ہم علماء پروڈیوس کر رہے ہیں جو فقہی مسائل کا علم رکھتے ہیں لیکن وہ علماء جو کردار سازی کا علم رکھتے ہوں، تقریبا” ناپید ہیں۔

ہمیں معاشرے میں کتنے فقہیہ چاہیے ہیں اور کتنے کردار ساز علماء اور اساتذہ؟ کوئی کیلکولیشن؟ کوئی ڈیٹا؟

ہماری ترجیحات کیا ہیں؟

آپ ہم والدین کو ہی دیکھ لیجیے۔۔۔۔۔ ہمیں اپنے بچوں کے گریڈز اور پوزیشن کی فکر کھائے جاتی ہے لیکن کردار، اخلاق اور اوصاف کا کیا حال ہے، ہم جانتے ہیں۔

آپ بازاروں میں تجار کو دیکھ لیجیے، یا دفاتر میں پروفیشنلز کو دیکھ لیجیے۔۔۔ انٹیگرٹی کا کیا حال ہے!

آپ سڑکوں پر چلتا ہوا ٹریفک ہی دیکھ لیجیے، بلکہ کسی بھی مسجد کے باہر گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کو دیکھ لیجیے، کیسے پارک کی گئی ہیں۔۔۔۔۔ انٹیگرٹی کا جنازہ نکلا ہوا نظر آئے گا!

آپ جو بھی ہیں، جہاں بھی ہیں، اس بات کو چلانا شروع کردیں کہ ہم اگر اپنی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ان اوصاف کی ڈویلپمنٹ پر کام شروع کردیں۔

اگر آپ عالم دین ہیں، استاد ہیں، کسی ادارے کے ذمہ دار ہیں تو اس وقت آپ پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خود بھی انٹیگرٹی والا انسان بننے کی کوشش کریں اور اپنی، مسجد، تعلیمی اداروں یا دفاتر میں اس بات کی مستقل یاد دہانی کروائیں۔

اگر آپ والدین ہیں تو بار بار اپنے بچوں کو یہ بتائیں کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے القابات صادق اور امین کیوں تھے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟

خود بھی سمجھیں اور اپنے بچوں اور دیگر احباب کو سمجھائیں کہ شارٹ کٹ کے چکروں میں نہ پڑیں، جھوٹ، وعدہ خلافی، اور امانت میں خیانت سے بچیں ورنہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ برباد ہوجائیں گے، بلکہ ہوگئے ہیں۔

اگر آپ سرکاری عہدیدار ہیں تو آپ کے اوپر تو پوری قوم کے حقوق ہیں۔

اس کے لیے جو انٹیگرٹی کا لیول چاہیے، اس کا اندازہ لگا لیں ورنہ بہت مشکل ہونے والی ہے۔ آپ کی زندگی تھوڑے ہی دنوں میں ختم ہونے والی ہے اور کروڑوں لوگوں کے حقوق کا حساب آپ نے دینا ہوگا۔

میں تو 22 سالوں سے اسی وژن پر ہوں کہ ہم بحیثیت امت خود پر کام کریں۔ اگر میرے دفتری اوقات 9 سے 5 ہوتے ہیں یا مثال کے طور پہ مجھے کم از کم 40 گھنٹے یا 46 گھنٹے اپنے ادارے کو دینے ہیں(اگر میرے معاہدے میں ایسی کوئی شق موجود ہے) تو میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ میں ہفتے میں 50 گھنٹے دے دوں یا اس سے زیادہ بھی۔

کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ دن میں بہت سا وقت ان کاموں میں لگ جاتا ہے جن کا ادارے کے مقاصد سے تعلق نہیں ہوتا تو مجھے اس کو compensate کرنا ہے۔

میں اپنے ملازمین سے بھی کہتا ہوں کہ دیکھو آپ سب عاقل بالغ، ذمہ دار لوگ ہو، کوشش کرو کہ زیادہ وقت دے دو تاکہ کوئی کمی ہوئی ہو تو وہ پوری ہوجائے۔

ہر روز کثرت سے استغفار کرتے رہو اور اللہ سے مانگو کہ ہمارے یہ مزاج بدل دے، ہمارے اطوار بدل دے کیونکہ میں ایسی قوموں کے لوگوں سے ملا ہوں اور میں نے ایسے معاشرے دیکھے ہیں جہاں انٹیگرٹی کا ہونا جزو لازم ہے، یعنی ایک عمومی صفت ہے۔

تو ہمیں کیا ہوگیا ہے؟

ہم تو اس نبی کے امتی ہیں جس سے زیادہ انٹیگرٹی والا کوئی انسان دنیا میں آیا ہی نہیں۔

میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ ایسا سوچتے ہیں۔

آئیے مل کر اپنے کردار کا قبلہ درست کرنے پر کام کرتے ہیں۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ٹریننگز، کنسلٹنگ اور کوچنگ کے ساتھ ساتھ، یہاں سوشل میڈیا پر زیادہ شدومد کے ساتھ ایک تحریک شروع کردی جائے۔

آپ میں سے جو شخص اس مسئلے لی شدت کو محسوس کرتا ہے، وہ اس پوسٹ کو کاپی اور پیسٹ کر کے اپنی پروفائل پر لگائے۔ میرا ارادہ ہے کہ اس حوالے سے چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بھی بناتا رہوں۔

آپ بھی جس حد تک انفلوئنس کرسکتے ہیں، کریں، ضرور کریں۔ کم از کم ہم اپنے آپ اور اپنے گھروں سے تو شروعات کر ہی سکتے ہیں۔

رمضان المبارک کا مہینہ اس حوالے سے ایک بہترین موقع ہے کہ اس ماہ مبارک میں اپنا جائزہ لیں، اپنے کردار کی صفات پر کام کرنا شروع کردیں، اپنے اوپر انویسٹ کریں، اپنے بچوں کردار سازی پر انویسٹ کیجیے۔

ہمیں اپنے نظام حیات کو دنیا کے سامنے لے کر جانا ہے لیکن اس سے پہلے خود تو اس کو اچھی طرح سے برتنا شروع کریں۔

یمین الدین احمد
7 مارچ 2024ء
دبئی، متحدہ عرب امارات۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!