Safar Zafar

محروم طبقات کواوپرلانے کیلئے ایک موثرہتھیار

میں عرصہ 20 سال سے ناگہانی آفات و حادثات میں مخلوقِ خدا کی امداد و بحالی اور ان کی تعمیر و ترقی کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ دیہی ترقی، زراعت، مائیکرو فنانس، اسلامک مائیکرو فنانس، رسمی و غیر رسمی تعلیم کے منصوبوں اور خدمت خلق کے مختلف امور میں مصروفِ عمل ہوں. میرے علاوہ بھی متعدد انسان دوست شخصیات، مخیر حضرت، سماجی خدمات اور انسانی ترقی کا شعور رکھنے والے سماجی کارکن، این جی او لیڈر،فلاحی و خدمات اداروں کے کارکن اور قومی تعمیر و ترقی کا علم، تجربہ اور جذبہ رکھنے والے پاکستانی انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے بےمثال کاوشیں کر رہے ہیں. وطن عزیز میں ایسی کئی مخیر شخصیات، سماجی رہنما اور رفاہی ادارے ہیں جنہوں نے میدان خدمت خلق میں اپنے فلاحی امور اور سماجی خدمات کی بدولت بہت عزت اور نام کمایا ہے. انسانی زندگی کو آسان اور بہتر بنانے والے ہر سوشل ورکر نے اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق لوگوں کی زندگیوں اور کردار و عمل پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں. مثال کے طور پر مائیکرو فنانس کے ادارے غریب اور بےروزگار افراد کو قرض دیتے ہیں جس سے وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں اور ان کا مستقل ذریعہ معاش شروع ہو جاتا ہے. تعلیمی فروغ کےلیے سرگرمیاں جاری کرنے والے نسلِ نو کے مستقبل کو روشن کر رہے ہیں. ہنگامی حالات (ناگہانی سانحات، قدرتی آفات) میں متاثرین کی امداد و بحالی کی انتظام کاری بھی مستحسن فلاحی عمل ہے جس سے مصائب و آلام میں گِھری انسانیت کی مشکلات میں کمی اور مسائل حل ہوتے ہیں.

میں نے اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کے دوران مختلف فلاحی اور ترقیاتی پروگراموں کے افراد اور معاشرے پر مثبت اثرات رونما ہوتے دیکھے ہیں اور انفرادی طور پربھی خدمت انسانی کے خوشگوار اور ثمر آور نتائج کا مشاہدہ  کیا ہے. ایسی کامیابی کی سینکڑوں مثالیں میرے سامنے ہیں. میں نے اپنے طور پر کئی گئی خدمت خلق کی سرگرمیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنی کی کوشش کی ہے ہے کہ ایسا کون سا فعل ہے جوانسانی زندگی پر سب سے گہرے اور پائیدارترقی کے اثرات مرتب کرے ! اس پہ میں نے تحقیق و جستجو کی ہے اور آپ کے سامنے کامیاب مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اب یہ آپ پہ منحصر ہے کہ اسے کس طرح دیکھتے ہیں اور چاہیں تو مجھ سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں

میں نے ابھی دی این جی او ورلڈ فاونڈیشن کا باقاعدہ آغاز نہیں کیا تھا اور ایک سماجی ادارے میں ملازم کے طور پرخدمات سرانجام دے رہا تھا. اس دوران میں اپنے آبائی گاؤں گیا تو میری ملاقات ایک نوعمر یتیم لڑکے سے ہوئی جو اچھے نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کر چکا تھا تاہم معاشی حالات ابتر ہونے کی وجہ آگے مزید تعلیم حاصل کرنے سے قاصر تھا لیکن اُسے آگے پڑھنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا شوق تھا۔ میں نے اس کی والدہ سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی اپنی غربت اور معاشی بدحالی کے سبب اس کی تعلیمی کفالت سے معذوری ظاہر کی. اس نوجوان کی خواہش تھی کہ اگر وہ 3 سال کا ٹیکنیکل ڈپلومہ مکمل کر لے گا تو برسرِ روزگار ہو جائے گا اور اپنی والدہ کی کفالت کے قابل ہو جائے گا. میں نے اس کے تعلیمی شوق، ارادے اور جذبے کے پیش نظر ایک دوست کی معاونت سے تعلیمی اداروں میں ٹیکنیکل ڈپلومے میں داخلے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ سرکاری سطح پر قائم ادارے اپنے داخلے مکمل کر چکے ہیں، باقاعدہ تدریسی عمل جاری ہو چکا ہے اور اب داخلے میں تاخیر ہو چکی ہے تاہم قریبی شہر میں نجی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں میکینکل ڈپلومہ میں داخلہ مل گیا اور ہم نے اس وقت 6000 روپے فیس ادا کر دی. بعدازاں ماہانہ فیس بھی ادا کرتے رہے. تین سال بعد اس کا ڈپلومہ مکمل ہوا توجلد ہے ایک صنعتی ادارے میں اس کو ملازمت مل گئی۔ الحمدللہ تب سے وہ برسرِ روزگار ہے، اچھی تنخواہ لے رہا ہے اور اپنی والدہ و بہنوں کےلیے واحد کفیل کی حیثیت رکھتا ہے. اسی طرح کی ایک اور کامیاب مثال سے آگاہ کرتا ہوں کہ تقریباً 5 سال قبل میں اپنے ایک دوست کے فارم پر گیا تو اس نے مجھے بتایا کہ یہاں بستی میں ایک لڑکے نے امتیازی نمبروں سے میٹرک پاس کی ہے لیکن اس کے والدین بےحد غریب ہیں جس کی وجہ سے اپنے بچے کو مزید تعلیم نہیں دلوا سکتے. میں نے اس نوجوان کو بلوایا اور اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور مستقبل کے کیا ارادے ہیں؟۔ اس نے بھی آگے پڑھنے اور ٹیکنیکل ڈپلومہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے وہی حکمت عملی اختیار کی اور ملتان کے ایک نجی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں اس کا داخلہ کروا دیا. دو، تین ہزار روپے ماہوار فیس تھی جو 3 سال تک ہم ادا کرتے رہے اور اس کا ڈپلومہ بھی مکمل ہو گیا. چند دن پہلے مجھے  وٹس ایپ پر اس کی تصویر موصول ہوئی. وہ جہاز میں سوار تھا. میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ ایک بحری تجارتی کمپنی میں اس کی جاب ہو گئی ہے اور وہ کویت جا رہا ہے. ساتھ ہی اسکی طرف سے مجھی شکریہ کا ایک پیغام بھی موصول ہوا۔

میں نے آپ کے سامنے مذکورہ بالا دو مثالیں رکھی ہیں. ان دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دو نوجوان جوکمزو معاشی حالات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے متحمل نہیں تھے، ہم نے اللہ پاک کی توفیق سے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ان کی تعلیمی کفالت میں کردار ادا کیا اور وہ ٹیکنیکل ڈپلومہ کی بدولت 3 سال کے قلیل عرصے میں روزگار حاصل کرنے کے قابل ہوئے اور بھرپور زندگی کے سفر پر گامزن ہوئے. لہٰذا اگر ہم اقتصادی لحاظ سے مفلوک الحال والدین اور معاشرے کے افلاس زدہ طبقے کے بچوں کو 2/3 سالہ فنی تعلیم کے حصول کیلئے وظیفہ جاری کر دیں تو وہ مختصرعرصے میں روزگار حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر معاشرے کے مفید رکن بن جاتے ہیں. فنی تربیت یافتہ ہنرمندوں کیلئے روزگار کے کثیر مواقع موجود ہیں اور غریب گھرانوں کو برسرِ روزگار کرنے اور ان کے کُنبے کی معیشت بہتر بنانے کیلئے یہ ایک مستقل اور پائیدار حل ہے. علاوہ ازیں اس فلاحی سرگرمی کا ایک مستحکم اور اثر انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ اُس فرد کے خاندان میں خوشگوار تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے کہ ان کی اگلی نسل تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب ہو جاتی ہے، تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے مستقل بنیادوں پر ان کی معاونت کر دی ہے. میں ان مثالوں سے آپ کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سماجی خدمات کا میدان بےحد وسیع ہے اور انسان دوست سماجی کارکن کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اس کی جاری کردہ فلاح و بہبود کے امور سے افرادِ معاشرہ کی زندگی آسان، بہتر اور مفید ہو جائے لہٰذا صورتِ حال کا جائزہ لیں اور اس حکمت عملی کو وہاں پر ضرور لاگو کریں جہاں اس کی ضرورت ہے. میں سمجھتا ہوں کہ خدمت خلق کا یہی انداز بہت بہتر ہے۔ انتہائی ذہین اور باصلاحیت طالب علموں کو یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا چاہیے لیکن ایف ایس سی کے بعد انہیں ⅚ سال پڑھنا پڑے گا اور ایک لمبا سفر طے کر کے جب وہ فارغ التحصیل ہوں گے تو انہیں عملی زندگی کے ابتدائی مراحل سے گزر کر کہیں قدم جمانے کا موقع ملے گا. یہ ایک طویل المدتی تعلیمی سلسلہ ہے تاہم اگر ذہانت ہے تو اس کی حوصلہ افزائی اور معاونت ضروری ہے. معاشی طور پر کمزور گھرانوں اور افلاس زدہ طبقے کے طالب علموں کو میٹرک کے بعد ان کےلیے فنی تعلیم/ٹیکنیکل ڈپلومے کی راہیں ہموار کریں. فنی تربیت یافتہ ہنرمندوں کےلیے روزگار کے وسیع مواقع موجود ہیں اور وہ ڈپلومے حاصل کرنے کے فوراً بعد ملازمت اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے کُنبوں کے کفیل بن جاتے ہیں اور یوں ایک خوشگوار تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس کا اثر ان کی آنے والی نسل پر بھی پڑتا ہے.

 میری سماجی کارکنان اور مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے پاس وسائل ہیں تو اپنے شہر، گاؤں، بستی، رفاہی سرگرمیوں کےلیے منتخب شدہ علاقے میں ایسے غریب، نادار، یتیم و مستحق طالب علموں کےلیے تعلیم و تربیت اور ٹیکنیکل ڈپلومے کی راہیں ہموار کریں. ہم نے دی این جی او ورلڈ فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے دوستوں کی معاونت سے ذیسٹ نان فارمل سکولز پراجیکٹ اورمحدود پیمانے پر “ذکاء اللہ ایجوکیشنل سکالرشپ پروگرام” جاری کررکھا ہے جس کے تحت غربت اور تنگدستی کا شکار غریب گھرانوں کے طلبہ و طالبات کو ٰتعلیم کے حصول کےلیے وظائف فراہم کئے جاتے ہیں.

اللہ نگہبان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!