قوموں کی تعمیر و ترقی میں اُستاد کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے. اُستاد علم و عمل کا سر چشمہ ہوتا ہے. ابتدائے آفرینش سے ہی اُستاد کو نظام تعلیم و فن میں مرکزی حیثیت حاصل ہے. درس و تدریس پیشہ پیغمبری ہے جسے صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ دُنیا کے ہر مذہب اور شعبے میں عظمت و بلندی کا مقام حاصل ہے. بےشک معلم کی ذات بنی نوع انسان کےلیے مفید، مُحسن اور عظیم تر ہے. علامہ اقبال کہتے ہیں “اُستاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور انہیں ملک و قوم کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سُپرد ہے” سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کار گزاری اساتذہ کرام کی خدمات و کارکردگی ہے. تمام قسم کی مذہبی، اخلاقی، تمدنی، انسانی اور معاشرتی اقدار کی کلید اُستاد کے ہاتھ میں ہے اور ہر پیشہءزندگی نے اُستاد کی کوکھ سے جنم لیا ہے. زندگی کا کوئی شعبہ خواہ عدلیہ، فوج، سیاست، تعلیم، بیورو کریسی، صحافت وغیرہ سب ایک اُستاد کی تدریسی خدمت و محنت اور صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں. اگر شعبہ ہائے زندگی میں عدل، توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ صالح و باعمل اُستاد کی پائیدار تربیت اور تعلیمات کا اثر ہے. اُستاد کو افراد کی سیرت و کردار اور معاشرتی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرنے کی وجہ سے معمارِ قوم کے خطاب سے بھی نوازا گیا ہے. معلمین اعلیٰ سماجی و انسانی اقدار کے امین و نگہبان ہونے کے ناطے ان اقدار کو نئی نسل میں منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہیں.
گذشتہ دنوں بےشمار طالب علموں کی علمی منازل روشن کرنے والے نہایت محترم استاد جناب ذکاء اللہ اور الہجرہ سکول اینڈ کالج ٹرسٹ کے بانی عبدالکریم ثاقب صاحب کے درمیان ملاقات ہوئی. ان تاریخ ساز شخصیات کی یہ نشست جناب ذکاء اللہ کے شاگرد ظفر اقبال کے تحرک و فعالیت کا نتیجہ تھی. افراد کی زندگیوں اور ان کے سیرت و کردار پر مفید و موثر اور خوشگوار تبدیلیاں لانے والے ان اساتذہ کا کردار و عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہے. تعمیرِ انسانیت، علمی ارتقاء اور فروغ تعلیم میں ان اساتذہ کرام کے جاندار کردار اور شاندار تعلیمی و تدریسی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں انکی خدمات کا ذکر دراصل ان کی مساعئ جمیلہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے لیے علم، عمل و راہنمائی کی راہیں تلاش کرنا ہے. ان سطور میں اُستادِ محترم عبدالکریم ثاقب کی انسان دوستی و جذبہء ایثار و قربانی سے کئی گئی تعلیمی کاوشیں مختصراً پیش کی جا رہی ہیں اور پھر نابغہء روزگار معلم محترم اُستاد جناب ذکاء اللہ کی گراں قدر تدریسی خدمات کے جائزے کے ساتھ ساتھ ان کی موثر علمی راہنمائی کے نتیجے میں ان کے شاگردِ رشید ظفر اقبال کی تعلیمی فروغ کےلیے جاری کردہ منصوبوں کا ذکر کیا جائے گا.
برادر عبدالکریم ثاقب مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور پچھلے 35 سال سے برمنگھم برجانیہ میں رہائش پذیر ہیں وہاں انہوں نے مسلم کمیونٹی کےلیے الہجرہ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کر رکھا ہے جس کی تدریسی خدمات کی تاریخ 3 عشروں پر محیط ہے. یہ ایک فعال اور کامیاب تعلیمی ادارہ ہے. اس درسگاہ سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں متوازن اور بہترین مسلمان کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں. وہاں کے مسلمان حلقے پر الہجرہ کے مفید اثرات نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں. عبدالکریم ثاقب نے 2004ء میں دوسرا تعلیمی ادارہ الہجرہ ریزیڈنشل سکول اینڈ کالج زیارت، پاکستان میں قائم کیا. الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت صوبہ بلوچستان میں سب سے بڑا مفت تعلیم دینے والا ادارہ ہے. یہاں صوبہ بلوچستان کے تمام اضلاع سے غریب اور کم آمدنی والے گھرانوں کے ذہین بچے ایف ایس سی تک مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں. طلبہ کو رہائش، خوراک، کتابیں اور یونیفارم بالکل مفت مہیا کی جاتی ہے اورطلباء کو کسی بھی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی. الہجرہ زیارت کا یہ خاص اور منفرد اعزاز ہے کہ حکومت بلوچستان نے اسے صوبے کے بہترین تعلیمی ادارے کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔.
الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت کی بے مثال تدریسی تاریخ اور شاندار خدمات اُس اعلیٰ فلاسفی کا مفید ترین نتیجہ ہیں جو برادر عبدالکریم ثاقب نے رائج کی. ان کی خاص فکر، نظریہ اور فلسفے کے تین پہلو ہیں جو (1)انسانیت، (2) اسلامیت (3) پاکستانیت پر مشتمل ہیں. وہ انسانیت کی توضیح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دُنیا کے تمام انسان اولادِ آدم ہیں تو اس لحاظ سے پوری انسانیت آپس میں رشتے میں جکڑی ہوئی ہے چنانچہ اس ناطے سے ہمارا وجود دُنیا کے ہر شخص کےلیے مفید و معاون ہونا چاہیے. دُکھ، تکلیف اور آزمائش کی گھڑی میں بلا رنگ و نسل اور بغیر کسی تفریق کے انسانوں کے مددگار ہوں، انسان دوستی کو مقدم رکھیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا جذبہ رکھنے والے ہوں اور انسانوں کو ہماری زندگی، صلاحیتوں اور وسائل سے فائدہ پہنچے. اسلامیت کی تشریح یہ کی جاتی ہے کہ ہم بہترین اور متوازن مسلمان ہوں، ہماری سوچ وسیع اور فطرت میں رواداری کا عنصر بخوبی ہونا چاہیے تاکہ ہم سب لوگوں کے ساتھ چل سکیں. قرآن و سنت سے مکمل استفادہ کرتے ہوئے تفرقہ بازی سے پاک ایسے اچھے مسلمان ہوں کہ جو معاشرے میں محبت، امن و سلامتی اور سچائی کے علمبردار ہوں اور ان میں جذبہ ایثار بدرجہ اُتم موجود ہو. عبدالکریم ثاقب کے نظریاتی فلسفے کا تیسرا پہلو پاکستانیت ہے جس سے مراد یہ ہے کہ محب وطن لوگ پیدا کئے جائیں یعنی ایسی نسل پروان چڑھائی جائے جو ملک و قوم کےلیے مفید شہری ثابت ہوں اور پاکستان کے عزت و احترام کو ہر حال میں مقدم رکھے.
برادر عبدالکریم ثاقب قوم و ملت کے مربی اُستاد اور انسان دوست شخصیت ہیں. 74 سالہ برادر عبدالکریم ثاقب جب اپنے پیچھے مڑ کے دیکھتے ہوں گے تو اپنے کارناموں کے مقابلے میں آزمائشیں، مشکلات اور رکاوٹیں ایک خواب کی طرح لگتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو بےحد پُرسکون محسوس کرتے ہیں. اللہ رب العزت نے انہیں ایک عظیم و مقدس مشن کی تکمیل کی سعادت سے نوازا ہے جو ان کے بعد بھی جاری و ساری رہے گا اور ان کےلیے صدقہ جاریہ کا باعث بنے گا۔ انشاءاللہ.
چک نمبر 487 (ج ب) ضلع جھنگ سے تعلق رکھنے والے معلم جناب ذکاء اللہ نے زندگی بھر علم و عمل کے چراغ جلائے ہیں. ان کا شمار پاکستان کے ان قابل احترام اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے کمرہ جماعت میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ طالب علموں کی عملی و فکری آبیاری کی ہے، ان کے نزدیک معلمی پیغمبری پیشہ اور قدم قدم پر طالب علموں کی راہنمائی کرتے ہیں. اُستاد ذکاء اللہ نے سرکاری تدریسی فرائض و اوقات کار سے بے نیاز ہو کر طالب علموں کی منازل کو روشن کیا اور بلامعاوضہ پڑھایا۔ وہ باقاعدگی، محنت، نظم و ضبط اور فرض شناسی پر پختہ یقین رکھنے والے باعمل معلم ہیں. ان کا کردار و عمل طلباء کے علاوہ معاشرے کے ہر فرد کےلیے مثالی نمونہ ہے. 82 سالہ عظیم معلم آج بھی علم، عمل، ہدایت و راہنمائی کی قندیلیں منور کئے ہوئے ہیں وہ آج بھی طلبہ و طالبات کی تعلیمی ترقی کیلئے روزِ اول کی طرح پُر جوش، متحرک و فعال ہیں. اُستاد ذکاء اللہ اپنی طویل ترین تدریسی خدمات، فرض شناسی، نیک نیتی، راست بازی، علم پروری، خدا ترسی، شخصی شرافت اور دیانت داری کی بدولت قومی تعلیمی تاریخ میں روشنی کا منیار ہیں. وہ اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت میں اس طرح مشغول و مگن ہیں جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے لگائے ہوئے پودوں کو پروان چڑھانے اور انہیں سایہ دار و پھل دار درخت بنانے کےلیے ان کی نگہداشت اور آبیاری میں مصروف رہتا ہے.
دی این جی او ورلڈ فاونڈیشن کے چئیرمین ظفر اقبال ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جن کو جناب ذکاء اللہ جیسے بلند پایہ اور قابل استاد کی معیت و راہنمائی میسر آئی. انہوں نے ظفر اقبال کی معلومات اور خود اعتمادی میں اضافہ کیا، معاشرتی بہبود اور جذبہء انسانیت کی نشوونما کی اور ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا اور علم کی لگن کا جذبہ، تعلیمی شوق اور زندگی میں آگے بڑھنے کا عملی سبق دیا. ظفر اقبال نے اپنے استادِ محترم کی دی ہوئی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کا شعار بنایا اور ہمیشہ اُن کے ادب، عزت و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا. جناب ذکاء اللہ کی ذات و شخصیت، خیالات و افکار اور کردار و عمل ان کےلیے مثالی نمونہ ہے. ظفر اقبال انسان دوستی کے راستے پر گامزن ہوئے. انہوں نے اپنے اُستاد کی جلائی ہوئی علم کی شمع کو بجھنے نہیں دیا اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور افرادِ معاشرہ کی تعمیر و ترقی کےلیے فروغ علم میں سرگرم عمل ہوئے.
محترم ظفراقبال نے متوسط طبقے کے بے وسیلہ طلباء کی تعلیمی کفالت کےلیے کاوشیں کیں اور اپنے عظیم مربّی معلم کی عظمت و خدمات کے اعتراف میں تعلیمی فروغ کےلیے “ذکاء اللہ ایجوکیشنل سپورٹ اینڈ سکالر شپ پروگرام” کا اجراء کیا جو علم و فن کی آبیاری اور تعلیمی ترقی کی ایک ہمہ گیر اور قابل عمل حکمت عملی ہے. اس تعلیمی منصوبے کا نام اُستادِ محترم کی بےمثال تعلیمی خدمات کے اعتراف اور ان کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلیے رکھا گیا. اس پروگرام کے تحت “ذیسٹ نان فارمل سکولز پراجیکٹ” ناصرف کامیابی سے ہمکنار ہوا بلکہ اس نے معاشرے پر مثبت و مفید اور خوشگوار اثرات مرتب کئے. بےشمار طلباء کی تعلیمی ترقی ممکن کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کے عزت و وقار میں بھی اضافہ ہوا.
خانیوال، ملتان اور کراچی میں سینکڑوں ذیسٹ غیر رسمی سکول کھولے گئے جہاں 7 سال سے 14 سال کے بچوں کو معیاری و موثر تدریس کے ذریعے 3 سال میں پرائمری جماعت کا امتحان پاس کرایا جاتا ہے. ان سکولوں میں عصری تدریس کے علاوہ دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت اور جسمانی نشوونما کا بھی خیال رکھا جاتا ہے. ذیسٹ سکولوں کے اساتذہ کو جدید تدریسی خطوط پر استوار کرنے اور طلباء کےلیے عملی نمونہ بنانے کی غرض سے تربیت سازی کی جاتی ہے۔.
ذکاء اللہ ایجوکیشنل سپورٹ پروگرام کے تحت مستحق گھرانوں کے طلباء کےلیے تعلیمی وظائف کا اجراء نسلِ نو کے روشن مستقبل کے تحفظ کا ہمہ گیر اور جامع منصوبہ ہے. دی این جی او ورلڈ فاؤنڈیشن کے چئیرمین ظفر اقبال سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی تناسب انتہائی کم ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غریب والدین اقتصادی محرومیوں کی بناء پر اپنے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے. معاشی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے غریب طبقہ بھوک و افلاس کا شکار ہے جس کے باعث بچے سکول نہیں جاتے. ذکاء اللہ ایجوکیشنل سپورٹ پروگرام کے تعلیمی وظائف معاشی مسائل میں اُلجھے اور بنیادی ضروریات میں مشکلات کا شکار والدین کےلیے ثمر آور ثابت ہوئے ہیں اور غریب بچے شوق و لگن سے تعلیمی عمل میں شامل ہوئے ہیں . دی این جی او ورلڈ فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے جاری ہونے والا یہ تعلیمی منصوبہ قومی لحاظ سے پائیدار ترقی کے اہداف SDG #04 “ہر ایک کےلیے معیاری تعلیم کے مساوی مواقع اور ذرائع کی فراہمی” کے حصول میں بھی معاون و مددگار ثابت ہے..
دی این جی او ورلڈ کے بانی چئیرمین ظفر اقبال ایک محب وطن پاکستانی ہیں جو خدمت ملک و قوم اور خدمت علم کے جذبے سے انسان دوستی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں. وہ حکومت پاکستان کی تعلیمی فروغ کی کاوشوں میں اپنا بھرپور حصہ ملائے ہوئے ہیں. ظفر اقبال، علم و فن کی شمعیں معاشرے کے تمام طبقات، وطن عزیز کے دور دراز علاقوں اور پسماندہ دیہات تک پہنچانے کے عزم کئے ہوئے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ محروم طبقات میں علم کی طلب اور تعلیمی تحریک پیدا کر کے عورتوں کو علم و فن حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے. ان کا طالبات کےلیے اعلیٰ تعلیمی منصوبہ ردا گرلز کالج ماہنی سیال کا قیام ہے. 2012ء سے قائم ردا گرلز کالج ماہنی سیال نے بے شمار طالبات کی علمی منازل کو روشن کر کے خانیوال کے دیہی سماجی منظر نامے پر خوشگوار تعلیمی انقلاب برپا کیا ہے. اس مادر علمی کی تدریسی خدمات کے معاشرے پر مفید اور نتیجہ خیز اثرات مرتب ہو رہے ہیں. ردا گرلز کالج سے فارغ التحصیل طالبات اپنے خاندان و ادارے کے نام کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کیلئے بھی ذمہ دار اور مفید شہری ثابت ہو رہی ہیں. یہاں سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے والی طالبات کی ایک کیثر تعداد قومی زندگی کے اہم شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے. یہ درسگاہ درجنوں سکولوں اور تعلیمی اداروں کو مطلوبہ تدریسی آسامیوں کےلیے اعلیٰ تعلیم یافتہ معلمات فراہم کر رہی ہے. جس سے سماجی تعمیر اور تعلیمی ترقی کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
تحریر: طارق نواز