میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی ہے جس میں سول جج درجہ اول محمد عمران قریشی صادق آباد کے ایک سکول کے تدریسی نظم و نسق کے معائنے کے دوران استاد کو کرسی پر بیٹھا کر خود طالب علموں کے ساتھ ڈیسک پہ بیٹھے ہیں اور معاشرے کو عملی پیغام دے رہے ہیں کہ ہم ایک استاد کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں اس مقام پر پہنچے ہیں، اساتذہ کرام ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور ان کی دل سے عزت کرتے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ کرام معاشرے کا اہم ترین اور نہایت واجب الاحترام حصہ ہیں جن کی عزت اور احترام سوسائٹی کے ہر فرد پر لازم ہے. یہ اعزاز صرف اساتذہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ وہ بےعلمی اور جہالت کی تاریکیوں کے پردے چاک کرتے ہیں اور علم و فن کی شمعیں روشن کرتے ہیں. غریب ہوں یا امیر،سبھی ان سے فیض یاب ہوتے ہیں اور نیکی و بدی ،اچھائی و برائی کی تمیز حاصل کرتے ہیں اور پستی سے اٹھ کر ترقی و عظمت کے آسمان پر پرواز کرتے ہیں. اساتذہ کرام سماج کےلیے مفید اور باشعور شہری، ملک و قوم کےلیے کارآمد افراد تیار کر کے مستقبل کی قوت اور مشینری فراہم کرتے ہیں. وہ ہر قسم کی بدی و ضلالت کے مقابلے میں چٹان کا کردار ادا کرتے ہیں. اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے “مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے” اس طرح اساتذہ کرام پیغمبر خدا حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور ریفارمر، مصلح کا کردار ادا کرتے ہوئے افراد کے اخلاقی عوارض کا خاتمہ کر کے انہیں نیکی اور اعلیٰ کردار کی عظمت سے آراستہ کرتے ہیں. معلمین کی عظمت و بڑائی کا اندازہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے “خدا کی قسم! اگر تمہارے (یعنی اہل علم) کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ ایک آدمی کو بھی راہ راست پر لائے تو وہ تمہارے لیے سو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے” اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مشہور قول ہے کہ جس شخص نے مجھے ایک لفظ سِکھا دیا وہ میرا استاد ہے اور لیے واجب الاحترام ہے. والدین بچے کی جسمانی پرورش و کفالت کرتے ہیں لیکن اساتذہ روحانی و ذہنی تربیت اور شخصیت کی تکمیل کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو عزت، ترقی اور کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں اسی لیے استاد کو روحانی باپ بھی کہا جاتا ہے. اساتذہ کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ان امور سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ استاد کے بغیر معاشرے میں کسی کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہ ہوتا. عصر حاضر کی ترقی، ہمہ گیر ذرائع ابلاغ جدید ایجادات، ٹیکنالوجی، سائنسی انکشافات و کمالات اساتذہ کے پھیلائے ہوئے علم کی برکتیں ہیں. علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر امجد ثاقب ،برادر عبدالکریم ثاقب وغیرہ جیسی عظیم شخصیات نے بھی اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں اعلیٰ کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔
مجھے فیس بک پہ یہ مراسلہ دیکھ کر حوصلہ افزا خوشگواریت اور طمانیت کا احساس ہوا کہ سماج کا ایک اہم فرد (سول جج) سکول کے دورے کے دوران اُستاد کی اہمیت و عظمت کا عملی اعتراف کر ریا ہے اور اُسے وہ مقام دے ریا ہے جو ان کا حق ہے. سول جج محمد عمران قریشی کی اس اعلیٰ اخلاقی قدر کی پاسداری پر میرے ذہن میں تاریخ کا یہ واقعہ تازہ ہو گیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کے پاس ان کے استاد اور اپنے وقت کے نامور عالم امام محمد بن حسن شبائی تشریف لائے تو خلیفہ وقت ان کی تعظیم میں بےاختیار اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے عظیم اُستاد کو تخت پر بیٹھایا اور خود ایک جانب کرسی پر بیٹھ گئے اور ان کی گفتگو کو بھرپور توجہ اور ادب سے سُنا اور جب وہ رخصت ہوئے تو پھر احترام و تکریم کا اظہار کیا.
معلمی، پیغمبری پیشہ ہے. اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلمِ انسانیت ہیں. آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کی گمراہی و ضلالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زندگی کو اپنی تعلیم و تربیت سے منور کیا اور انسان صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کہلانے کا حقدار ہوا. اساتذہ کرام اپنی تعلیم و تربیت اور کردار و عمل سے ایسی قوم تیار کرتے ہیں جو جغرافیائی حدود تبدیل کر دیتی ہے اور ملت کو اوجِ کمال تک پہنچا دیتی ہے. اساتذہ کرام کسی بھی قوم، ملت و معاشرے کے روح رواں ہونے کے ساتھ ساتھ امارت کے بھی حق دار ہوتے ہیں. ان کے اقوال و افعال اور کردار و عمل پوری ملت پر اثرانداز ہوتا ہے. دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی کامیابی کا سہرا اساتذہ کرام کے سر جاتا ہے کیونکہ وہ علم و دانش کا منبع ہوتے ہیں ان کے درس و تدریس، محنت و لگن سے علم و فن کی شمعیں روشن ہوتی ہیں. مہذب معاشرے کے باسی قوم کے معماروں یعنی اساتذہ کرام کو بے حد عزت و تکریم دیتے ہیں. انہیں سماج میں نہایت باوقار مقام حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ مستقبل کے معمار ہونے کے ناطے قوم کے محسن ہوتے ہیں. نامور ادیب، مفکر و مصنف جناب اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ میں روم میں مقیم تھا اور وہاں ایک یونیورسٹی میں لیکچر دیتا تھا. ایک روز مجھ سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوئی اور مجھے جرمانہ عائد ہو گیا جو میں بروقت ادا نہیں کر سکا جس کی بناء پر مجھے عدالت میں پیش ہونا پڑا. جج صاحب کے استفسار پہ میں نے وضاحت دی کہ میں ایک استاد ہوں اور تدریسی مصروفیات کی وجہ سے جرمانہ ادا کرنے کےلیے وقت نہیں نکال سکا تو ۔جج صاحب ہڑ بڑا کر اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے، مجھے سلام کیا اور بڑے فخریہ انداز میں بولے کہ “A teacher in Court “.. مجھے کرسی پیش کی گئی اور معذرت کرتے ہوئے احترام سے بری کر دیا گیا. اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو قو میں اپنے محسن کا احترام کرتی ہیں، ان کی عظمت و بڑائی کا اعتراف کرتی ہیں انہیں ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان ممالک کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ استاد کا احترام کرتے ہیں اور اسے جائز مقام دیتے ہیں.
ہر دور اور ہر معاشرے نے استاد کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے. مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ولی عہدِ وقت اساتذہ کے جوتے سیدھے کرتے تھے اور استاد اپنے شاگردوں کا مربی و نگہبان ہوتا تھا. مغرب کی حیرت انگیز ترقی اساتذہ کی وجہ سے ہے اور وہاں استاد کا وہی مقام اور مرتبہ ہے جو ہمارے ہاں اعلیٰ سرکاری افسران یا بیوروکریسی کا ہوتا ہے. لیکن جدید نظام تعلیم میں استاد کو ایک ایسے تنخواہ دار ملازم کی حیثیت دے دی گئی ہے جس کا مقصد صرف اپنے روزگار کےلیے پڑھانا ہے. بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ انہیں اصل مقام دینے کو تیار ہی نہیں. جہاں طالب علم اپنے استاد کے جوتے اٹھانا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے اب وہاں استاد اپنے شاگردوں جیسا فرد بن کر اپنی عزت کھو چکا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا نظام تعلیم اور تدریسی نصاب دُنیاوی علوم سے تو روشناس کراتا ہے لیکن عظیم مذہبی و اخلاقی روایات، انسانی و ثقافتی اقدار سے عاری ہے. طالب علموں کو اسلام کے انقلابی پیغام اور اخلاقیات ،شائستگی اور احترام آدمیت کے ضروری قواعد اور انسانیت کی اقدار سے لاعلم رکھا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ طلباء کے ذہنوں سے استاد کی عزت و احترامِ مفقود ہو چکا ہے. آج ہر طرف ترقی کا دور دورہ ہے لیکن ہم غلطی سے صرف مادی اور جدید ترقی کو کامیابی کی منزل سمجھتے ہیں. درحقیقت معاشی ترقی تہذیب، اخلاق و کردار اور اقدار کو روند رہی ہے اور لوگوں کو اوصاف حمیدہ کے ساتھ ساتھ انسانیت سے دور کر رہی ہے لیکن تیزی سے جدت کی طرف جاتی ہوئی دُنیا کا ساتھ دینے کےلیے مادی ترقی بھی ضروری ہے ورنہ ہم ترقی یافتہ اقوام کے رحم و کرم پر ہوں گے. ہمیں مذہبی اور مثبت اخلاقی اقدار کے تحفط اور فروغ کےلیے کاوشیں بروئے کار لانی چاہئیں جس کا انحصار اساتذہ کی مساعی ء جمیلہ پر ہے. اخلاقی اور اصلاحی میدان میں اساتذہ کرام کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے.
اساتذہ کو بنیادی طور پر معاشرے میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے. ان کے مالی وسائل کم ہیں اور انہیں عزت و ضروریات کے پیش نظر حق نہیں ملتا اس وجہ سے شعبہ تعلیم میں عام، نالائق اور سطحی حیثیت کے افراد شامل ہو گئے ہیں جن کی بے عملی اور پست کردار نے تعلیمی میدان میں بحرانی کیفیت پیدا کی ہے. یہ پیشہ مقدس اور اہم تھا لیکن زر کی ہوس نے اسے نقصان پہنچایا اور یوں تعلیم کی روشنی سے اجالا نہ ہو سکا. میری قطر میں ایک کانفرنس کے موقع پر صوبہ خیبر پختون خواہ کے سابق وزیر تعلیم عاطف خان سے گفتگو ہوئی. وہ ان دنوں تعلیمی فروغ کےلیے بہت تگ و دو کر رہے تھے. میں نے تجویز پیش کی کہ پیشہ معلمی یا استاد کے پیشے کو اتنا اہم، پُرکشش اور مراعات یافتہ بنا دیا جائے کہ اساتذہ کرام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور پروٹوکول میسر ہو. ہمارے سماج میں میٹرک اور ایف ایس سی کے ذہین اور قابل طالب علم، جو بہت اچھے نمبروں کے ساتھ اعلیٰ درجے میں امتحان پاس کرتے ہیں اور انجینئر، ڈاکٹر، آرمی آفیسر، سی ایس ایس آفیسر وغیرہ بننا چاہتے ہیں. ان کی تمناء استاد بننے کی ہو اور وہ بخوشی پیشہ معلمی کا انتخاب کریں. انہیں یہ ترغیب ملے کہ استاد کی عزت، مقام اور رتبہ عظیم تر ہے، اس پیشے میں مراعات، سہولیات اور فوائد و ثمرات بدرجہ اتم موجود ہیں اور معاوضہ پُرکشش ہے تو اس طرح باصلاحیت اور لائق طالب علم معلم بننے کے خواب دیکھیں. اگر قابل اور باشعور افراد شعبہ تعلیم میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے تو یقیناً وہ لوگ استاد بنیں گے اور قوم کا مستقبل ان ہاتھوں میں ہو گا جو ہرگز اس کے اہل نہیں تھے اور پیشہ تعلیم و تدریس میں آنا کبھی ان کی منزل نہ رہا تو ظاہر ہے وہ صحیح معنوں میں تدریسی فرائض انجام نہیں دیں گے اور نہ ہی انہیں کوئی احساس یا تحریک ہو گی لیکن جو فرد استاد بننے کا خواب دیکھ کر اپنے مقصد کے ساتھ شعبہ تعلیم میں وارد ہو گا تو بلاشبہ وہ بہترین استاد اور طلباء کےلیے عملی نمونہ ثابت ہو گا. بدقسمتی سے پاکستان میں شعبہ تعلیم میں وہی لوگ آتے ہیں جو دوسرے شعبوں میں جاب حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور آخر میں مجبوراً تعلیمی شعبے میں در آتے ہیں. ایسی صورتحال میں نسل نو کےلیے لائق، قابل اور بہترین کردار و عمل کے حامل اساتذہ کی توقع رکھنا عبث ہے.
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شعبہ تعلیم میں اساتذہ کرام کی ایک ایسی تعداد بھی موجود ہے جو اپنے تدریسی فرائض سے غفلت اور لاپرواہی برتتی ہے. یہ لوگ اسکول، کالج یا تعلیم گاہوں میں اپنی بس حاضری ضروری سمجھتے ہیں اور طلباء کو اس بےرغبتی اور بےتوجہی سے پڑھاتے ہیں کہ وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور ان کا جو قیمتی وقت تعلیم و تربیت کے حصول میں صرف ہونا چاہیے وہ برباد ہو جاتا ہے. اب بہت کم اساتذہ کردار و عمل کا نمونہ ہیں جو طالب علموں کی سیرت، شخصیت و کردار کی مثبت بنیادوں پر تعمیر کر سکیں اس لیے معاشرے میں بے راہ روی، بد اعمالی اور منفی سرگرمیاں عام ہو چکی ہیں، انسانیت اور اخلاقیات دم توڑ رہی ہے. کرپشن، زر پرستی اور ہوس کا دور دورہ ہے. جب نااہل افراد معلم بن جاتے ہیں تو وہ اخلاق و کردار کے مثبت پہلو نہیں اپناتے ان رقیق حرکات و سکنات طلباء کے اعتماد پر گراں گزرتی ہیں نتیجتاً استاد اپنے درس و تدریس سے طالب علم کے ذہن اور شخصیت پر مثبت اثرات مرتب نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے طالب علم کا کردار مسخ ہو جاتا ہے. ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر ایک قابل استاد کے پاس سرکش، نافرمان اور ضدی بچے یا جرائم پیشہ افراد کی اولاد تعلیم حاصل کرے تو وہ مفید اور باوقار شہری بنیں. عصر حاضر میں اساتذہ کرام کے احترام میں بتدریج کمی ہو رہی ہے، استاد، طلباء، والدین اور حکومت اس تنزلی کے ذمہ دار ہیں لیکن اس میں زیادہ حصہ اساتذہ کا اپنا ہے جو اپنی اصل ذمہ داری اور فرائض سے بھٹک گئے ہیں اور نظام تعلیم میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں. لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے اساتذہ کرام اپنے طالب علموں کےلیے رول ماڈل ہوں ان میں اخلاقی لحاظ سے کوئی خامی نہ ہو اس کا کردار بے داغ اور نیک سیرت ہوں. علم و دانش کا مرقع ہوں. اساتذہ مضبوط کردار کے حامل ہوں ان کے معاشرتی روئیے مثالی ہونے چاہئیں تو قوم گمراہ نہیں ہو سکتی. معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے اور طلباء معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں. ان کی مرکزی حیثیت سے کسی کو انحراف نہیں. طالب علم طبقے کو مثبت اور ٹھوس تعمیری بنیادوں پر درست سمت میں گامزن کر دینے سے پوری قوم کی اصلاح ممکن ہے. اساتذہ تعمیر ملت کر سکتے ہیں اور مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں. یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ استاد معاشرے میں اسی وقت موثر کردار ادا کر سکتا ہے جب اسے مناسب اور جائز مقام، احترام اور عزت و وقار حاصل ہو. استاد قوم کا معمار ہے اگر وہ اپنے فرض کی کماحقہ انجام دہی کرے اور اپنے پیشے سے انصاف کرے تو مثالی معاشرے اور ترقی یافتہ قوم کی تشکیل ممکن ہے.
ہمارے معاشرے میں بے عملی کی سب سے بڑی وجہ علم و عمل سے دوری ہے. اساتذہ کرام کےلیے جس قدر اپنے شعبے میں ماہر ہونا ضروری ہے اس سے کہیں بڑھ کر ان کے کردار، عمل اور قول و فعل کا درست سمت میں متعین ہونا لازم ہے. ایک استاد جب طلبہ و طالبات کی علمی و عملی راہنمائی اور ان کی تشنگی دور نہیں کرتا تو اس کی تدریس کا موثر نتیجہ نہیں نکلتا. علاوہ ازیں طریقہ ء تدریس واضح، عام فہم اور آسان ہونا چاہیے جس میں دلچسپی و توجہ کا پہلو نمایاں ہو تاکہ طالب علم صحیح معنوں میں سیکھ سمجھ کر علم حاصل کر سکیں. اساتذہ کرام اپنے علم و عمل کو مزید وسعت دیں اور انہیں روشنی کے منیار کی طرح ہونا چاہیے جس سے ہر کوئی روشن ہو. تاکہ اپنے شاگردوں کےلیے مثالی نمونہ بن سکیں. یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علم، عمل امانت، دیانت اور صداقت کو یکجا کر دیا جائے تو ہماری تقدیر بدل سکتی ہے اور یہ کام انہی صفات کا حامل اساتذہ کرام کا گروہ ہی انجام دے سکتا ہے.
یہ بات بالکل درست ہے کہ معلم اور متعلم باہم تعلیمی عمل کو کامیاب بناتے ہیں لیکن انہیں نصاب کا سہارا لینا پڑتا ہے. عملِ تعلیم میں نصاب کا وہی اہمیت و کردار ہے جو انسانی جسم میں خون کا ہے. بالکل اسی طرح استاد اور طالب علم تدریسی عمل کے دو اہم ستون ہیں تاہم نصاب کی غیرموجودگی میں یہ دونوں غیر موثر ہیں. تعلیم کے مطلوبہ مقاصد اور ثمرات کے حصول کیلئے نصاب کو استعمال کیا جاتا ہے اس لیے تعلیمی نصاب ملی و قومی امنگوں کا ترجمان، ملکی حالات و واقعات اور مذہبی عقائد کا آئینہ دار ہو. وطن عزیز کے نظام تعلیم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ نصابی کمزوری ہے. ہمارا نصاب تعلیم اساسی تقاضے پورے نہیں کرتا. جس کے نتیجے میں قوم بلند کردار اور اخلاقی و انسانی اقدار سے عاری ہوتی جا رہی ہے. دراصل نصاب میں عمرانی، نفسیاتی، فطری، اخلاقی اور تعمیروں خطوط کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے. ہمارا تعلیمی نصاب معاشی تقاضے تو شائد پورے کرتا ہو لیکن اس سے اخلاقی، قومی، فطری انسانی و تعمیری مقاصد ممکن نہیں. تعلیمی نصاب میں نونہالانِ وطن کو انسانیت، اخلاقیات، مذہبی عقائد،سیاست، معیشت، معاشرت، تہذیب و تمدن، ثقافت، انسانی و سماجی اقدار، نظم و ضبط، حب الوطنی، رسوم و رواج، زندگی کے طور طریقے، پیشے، راہِ عمل، تفریحات، شخصی کامیابی و ناکامی کے نتائج و اسباب اور تمنائیں وغیرہ سے آگاہ کیا جائے جو مستقبل کی بقاء، تجدید اور ترقی کا ضامن ہو گا. ہمارے تعلیمی نصاب میں اعلیٰ فنی، سائنسی قابلیت پیدا کرنے کے ساتھ ذہنی، اخلاقی، اور کردار کی تربیت کی صلاحیت ہونی چاہیے. ایک طالب علم جب دس پندرہ سال سکول، کالج اور تعلیمی ادارے میں گزار کر عملی زندگی میں قدم رکھے تو اس کا طرز عمل مثبت و مفید اور اخلاقیات اعلیٰ اقدار پر قائم ہونی چاہئیں. جب وہ سیاسی، سماجی، سرکاری ذمہ داریاں سنبھالیں تو مثبت اثرات اس کے کردار و عمل سے ظاہر ہوں. جب تک ہمارا نظام تعلیم، تدریسی نصاب، اور اساتذہ کرام اپنی اصل روح اور حقیقی فلسفے کے ساتھ لاگو نہیں ہوں گے تب تک حقیقی مثالی معاشرے کی تکمیل ممکن نہیں. موجودہ نظام تعلیم کو بدلنے کےلیے جزوی یا سطحی تبدیلیاں کافی نہیں اس کےلیے بنیادی طور پر ٹھوس اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے. نصاب تعلیم کی مفید و موثر عملی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کو اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرنے کےلیے تیار کرنا وقت کا تقاضا ہے اس مقصد کے حصول کےلیے اساتذہ کی پائیدار تربیت سازی کی جائے تاکہ نصاب و عمل باہم مل کر مستقبل کو روشن کر سکیں۔.
اللہ نگہبان