Safar Zafar

انسانیت – اسلامیت – پاکستانیت

گذشتہ دنوں میری ملاقات دو ایسی شخصیات سے ہوئی جو اپنے اپنے شعبوں میں اتھارٹی ہیں اور الگ الگ دو اداروں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں جو تاریخی لحاظ سے ایک منفرد نظرئیے اور فلسفے کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کر رہے ہیں. میری ان دونوں اداروں کے سربراہان/منتظمین کے ساتھ ایک بھرپور نشست ہوئی اور میں نے ایک اچھے سامع کی طور پر ان کے خیالات جانے، ان کے نظریات اور فلاسفی کو پوری طرح سے سمجھا. اس دوران ان کے جو معاملات اور اہم امور زیربحث آئے اور انہوں نے انسانی و قومی تعمیر و ترقی کےلیے جو آراء، تجاویز اور مشورے فراہم کئے. میں ان کا یہاں فرداً فرداً ذکر کروں گا. متحرک اور فعال شخصیات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ان کے طرزِ زندگی اور کارناموں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں. ایسے لوگ نسلِ نو کےلیے رول ماڈل ہیں اور ان کے کردار و عمل سے راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے.
میری الہجرہ سکول ٹرسٹ کے اسلام آباد دفتر میں جناب عبدالکریم ثاقب سے ملاقات ہوئی جو برمنگھم سے پاکستان آئے ہوئے تھے. اس نشست میں مفتی نعمان نعیم صاحب بھی موجود تھے جو خاص طور پر عبدالکریم ثاقب صاحب کو ملنے کےلیے اسلام آباد آئے ہوئے تھے. سب سے پہلے میں مفتی نعمان نعیم کے بارے میں بتا دوں کہ وہ مشہورِ زمانہ عالمِ دین شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم صاحب کے فرزند ارجمند ہیں. مولانا مفتی محمد نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم تھے. وہ بہت بڑی علمی و دینی شخصیت تھے. ٹی وی پروگراموں میں اکثر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے تھے. امہ مسلمہ کے ساتھ ساتھ قومی معاملات پر ان کی رائے کو معتبر جانا جاتا. وہ بہت متوازن مدلل اور تدّبر سے بھرپور گفتگو کرتے تھے. مفتی محمد نعیم کچھ عرصہ قبل بقضائے الہی وفات پا چکے ہیں. اب جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی کا نظم و نسق ان کے صاحبزادے مولانا مفتی محمد نعیم کے ہاتھ میں ہے. انہوں نے جامعہ بنوریہ کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس درسگاہ کی بنیاد مفتی نعمان نعیم کے دادا نے رکھی تھی جو پارسی مذہب کے پیروکار تھے اور دینِ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمان ہو گئے. 1947ء کے تاریخی انقلاب کے دوران ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں آباد ہوئے. یہاں وہ مذہب اسلام کی اشاعت اور دینی تعلیمات کے فروغ کےلیے سرگرم عمل ہوئے. انہوں نے یہاں ایک چبوترے پر مدرسہ قائم کیا. جو ترقی کی منازل طے کرتا ہوا دینِ اسلام کی عالمی یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے. عصرِ حاضر میں جامعہ بنوریہ میں تقریباً 6000 طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں. غیرملکی طلباء کی تعداد 1000 ہے تاہم کرونا وباء کی صورتحال میں کچھ طلباء واپس اپنے ملکوں میں چلے گئے ہیں تاہم اب بھی دُنیا کے 53 ممالک کے 600 طلبہ و طالبات جامعہ بنوریہ عالمیہ میں علوم و فنون سے خوشہ چینی کر رہے ہیں. مفتی نعمان نعیم کی زبانی علم ہوا کہ بعض اوقات بیرون ممالک کے بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی یہاں منتقل ہو جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی طرح سے پرورش و نگہداشت کر سکیں. اس دوران وہ اپنی بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ خود بھی درس و تدریس سے مستفید ہوتے ہیں. اس درسگاہ کے 50 سے زائد شعبہ جات ہیں. جامعہ بنوریہ کا الحاق ایچ ای سی سی، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا کے ساتھ ساتھ دُنیا بھر میں قائم مختلف یونیورسٹیوں سے ملحق ہے. اسے ایک عالمی مدرسہ/یونیورسٹی بھی کہہ سکتے ہیں. یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے دُنیا کے مختلف حصوں (جرمنی، امریکہ، ایشیائی و افریقی ممالک وغیرہ) میں اسلامک سرکلز قائم کئے ہوئے ہیں. جو بہت بڑے پیمانے پر تعلیمی، تحقیقی، تبلیغی و اشاعتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں. دُنیا کے مختلف ملکوں میں جامعہ بنوریہ سے ملحق تعلیمی ادارے فروغ و اشاعت علم میں گامزن ہیں. اس ادارے کی خدمات کی تاریخ طویل ہے اور موجودہ دور قیادت نوجوان ہاتھوں میں ہے. مفتی نعمان نعیم ایک پُرجوش اور توانا عزم نوجوان ہیں. وہ اپنے علم اور تجربے کو بڑھانے کیلئے بہت سفر کرتے ہیں اور کامیاب شخصیات سے ملاقاتیں اور فعال اداروں کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں. وہ ایک روشن خیال اور جدت پسند نوجوان ہیں انہوں نے جامعہ بنوریہ عالمیہ کے انتظامی و تدریسی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے اور اپنے ادارے کو عصر حاضر کے تعلیمی لوازمات سے مزین کیا ہوا ہے اور دورِ حاضر کی جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں. یوم آزادی پاکستان کے موقع پر الہجرہ ٹرسٹ سکول زیارت کی منعقدہ تقریب میں بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی. انہوں نے الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت کے تعلیمی نظام کا بغور جائزہ لیا جو ان کےلیے مثبت تحریک و ترغیب کا سبب بنا. الہجرہ سکول ٹرسٹ کے زیرانتظام تعلیمی نظام کا فلسفہ و نصب العین، تنظیمی و تدریسی نظام، منفرد تعلیمی ماحول اور
معاشرے پر اس کے مفید اثرات سے مفتی نعمان نعیم متاثر ہوئے اور اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت (ٹرسٹ) کے بانی جناب عبدالکریم ثاقب بھی پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں تو انہوں نے اس کامیاب نظام کے بانی اور اعلیٰ عملی فلاسفی کے حامل انسان سے ملنا بےحد ضروری خیال کیا. چنانچہ یہ ملاقات اسی سلسلے میں تھی. مفتی نعمان نعیم نے جامعہ بنوریہ عالمیہ کا تعارف اور خدمات بیان کیں. ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایک عالمی درسگاہ، جس میں اعلیٰ دینی و دُنیاوی تعلیم کے مینار روشن ہیں اور جہاں امت مسلمہ کے بچے زیورِ علم سے آراستہ ہو رہے ہیں. مجھے یہ بھی خوشگوار احساس ہوا کہ دُنیا کے 53 ممالک کے طلباء جب یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے ملکوں میں جاتے ہیں تو وہ غیر رسمی طور پر پاکستان کے سفیر ہیں جو دُنیا کے مختلف حصوں میں پاکستان کی پہچان کے ساتھ ساتھ ہمارا مثبت امیج پیش کر رہے ہیں.

اُستاد ڈاکٹر عبدالکریم ثاقب سے بہت طویل رفاقت ہے. الحمدللہ مجھے بےشمار مرتبہ ان کی مجلس میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے. جناب عبدالکریم ثاقب مدینہ منورہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور پچھلے 35 سال سے برمنگھم میں رہائش پذیر ہیں وہاں انہوں نے مسلم کمیونٹی کےلیے الہجرہ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے جس کی تدریسی خدمات کی تاریخ 3 عشروں پر محیط ہے. یہ ایک فعال اور کامیاب تعلیمی ادارہ ہے. اس درسگاہ سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں متوازن اور بہترین مسلمان کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں. وہاں کے مسلمان حلقے پر الہجرہ کے مفید اثرات نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں. برادر عبدالکریم ثاقب نے 2004ء میں دوسرا تعلیمی ادارہ الہجرہ سکول اینڈ کالج ٹرسٹ زیارت، پاکستان میں قائم کیا. مجھے متعدد بار الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے. میں نے یہاں زیرِ تعلیم طلباء سے بھی نشستیں کی ہیں. الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت صوبہ بلوچستان میں سب سے بڑا مفت تعلیم دینے والا ادارہ ہے. یہاں صوبہ بلوچستان کے تمام اضلاع سے غریب اور کم آمدنی والے گھرانوں کے ذہین بچے ایف ایس سی تک مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں. یہاں مفلوک الحال طبقے کے بے وسیلہ طلبہ و طالبات کو داخل کیا جاتا ہے جن کو رہائش، خوراک، کتابیں اور یونیفارم بالکل مفت مہیا کی جاتی ہے طلباء کو کسی بھی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی. الہجرہ زیارت کا یہ خاص اور منفرد اعزاز ہے کہ حکومت بلوچستان نے اسے صوبے کے بہترین تعلیمی ادارے کے ایوارڈ سے نوازا ہے.

 

 

الہجرہ سکول اینڈ کالج زیارت کی بے مثال تدریسی تاریخ اور شاندار خدمات اُس اعلیٰ فلاسفی کا مفید ترین نتیجہ ہیں جو ڈاکٹر عبدالکریم ثاقب نے رائج کی. جناب عبدالکریم ثاقب کی خاص فکر، نظریہ اور فلسفے کے تین پہلو ہیں جو (1)انسانیت، (2) اسلامیت (3) پاکستانیت پر مشتمل ہیں.
وہ انسانیت کی توضیح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دُنیا کے تمام انسان اولادِ آدم ہیں تو اس لحاظ سے پوری انسانیت آپس میں رشتے میں جکڑی ہوئی ہے چنانچہ اس ناطے سے ہمارا وجود دُنیا کے ہر شخص کےلیے مفید و معاون ہونا چاہیے. دُکھ، تکلیف اور آزمائش کی گھڑی میں بلا رنگ و نسل اور بغیر کسی بھی تفریق کے انسانوں کے مددگار ہوں، انسان دوستی کو مقدم رکھیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا جذبہ رکھنے والے ہوں اور انسانوں کو ہماری زندگی، صلاحیتوں اور وسائل سے فائدہ پہنچے. اسلامیت کی تشریح یہ کی جاتی ہے کہ ہم بہترین اور متوازن مسلمان ہوں، ہماری سوچ وسیع اور فطرت میں رواداری کا عنصر بخوبی ہونا چاہیے تاکہ ہم سب لوگوں کے ساتھ چل سکیں. قرآن و سنت سے مکمل استفادہ کرتے ہوئے تفرقہ بازی سے پاک ایسے اچھے مسلمان ہوں کہ جو معاشرے میں محبت، امن و سلامتی اور سچائی کے علمبردار ہوں اور ان میں جذبہ ایثار بدرجہ اُتم موجود ہو. برادر عبدالکریم ثاقب کے نظریاتی فلسفے کا تیسرا پہلو پاکستانیت ہے جس سے مراد یہ ہے کہ محب وطن لوگ پیدا کئے جائیں یعنی ایسی نسل پروان چڑھائی جائے جو ملک و قوم کےلیے مفید شہری ثابت ہوں اور پاکستان کے عزت و احترام کو ہر حال میں مقدم رکھے. وہ جذبہ حب الوطنی اور ایثار و قربانی سے لبریز ہوں. سچے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور اور وطن سے محبت کرنے والے پاکستانی ہوں.
ڈاکٹر عبدالکریم ثاقب نے اپنی اس عمل انگیز نظریاتی فلاسفی کے قیام کےلیے نتیجہ خیز حکمت عملی ترتیب دی ہے جس کی رو سے تدریسی خطوط کو سہ زبان میں رائج کیا گیا ہے. تعلیمی نصاب خاص طور پر انگلش، عربی اور اردو میں مرتب کیا گیا اور ان تینوں زبانوں کو لازمی ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا. عبدالکریم ثاقب صاحب کا کہنا ہے کہ انگریزی انسانیت کی زبان ہے اس لیے انگلش ہر فرد کو سیکھنی چاہیے کیونکہ یہ زبان دُنیا کے طول و عرض میں بولی اور سمجھی جاتی ہے چنانچہ جس فرد کو انگریزی زبان آتی ہو گی تو وہ ایک بڑے پیمانے پر دُنیا بھر کے لوگوں سے روابط قائم کر کے معاملات آگے بڑھا سکتا ہے اور دُنیا بھر میں اپنا کردار بآسانی ادا کر سکتا ہے. پھر عربی زبان ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن مجید کی زبان ہے. احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جنت کی زبان ہے تو اس زبان کو جب تک مکمل طور پر سیکھا نہیں جائے گا تب تک ہم مذہب اسلام کا حقیقی فہم حاصل نہیں کر پائیں گے اور ہم صحیح معنوں میں اس کی روح تک نہیں پہنچ پائیں گے. اس امر کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ہم عربی زبان پر عبور رکھتے ہیں تو ہم براہ راست قرآن مجید سے راہنمائی لیں گے اور کوئی ہمیں غلط نظریات کی تعلیم نہیں دے سکے گا. ہم تفرقہ بازی کی لنعت سے محفوظ رہیں گے لہذا بحیثیت مسلمان قرآن فہمی کےلیے عربی زبان کا جاننا اور سیکھنا از حد ضروری ہے. الہجرہ سکول ٹرسٹ کے نصابی عمل میں اردو زبان کو بھی لازمی ذریعہ تعلیم نافذ کیا گیا ہے کیونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے اس زبان سے ہم اپنی تہذیب و تمدن اور معاشرت سے آگاہی حاصل کرتے ہیں اور ملک و قوم سے روابط استوار کرتے ہیں جس سے ہمارا نقطہء نظر واضح ہوتا ہے اور معاملات معاشرت آگے بڑھتے ہیں. اردو طرزِ معاشرت کو مہذب بناتی ہے اور سماج میں اتحاد و یگانگت قائم ہوتی ہے. جب ڈاکٹر عبدالکریم ثاقب اپنی اس خوبصورت اور باثمر فلاسفی سے آگاہ کر رہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ ہمارے ہاں کلی طور پر سیکولر نظام کے تحت چلنے والے سکول /تعلیمی ادارے ہیں یا مکمل طور پر مذہبی درس و تدریس کے مدارس ہیں. اگر یہی الہجرہ کی عمل انگیز حکمت عملی پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں بشمول گورنمنٹ شعبہ تعلیم، دینی مدارس اور نجی درسگاہوں میں رائج کر دی جائے جہاں یہ تینوں نصابی عمل(انگریزی، عربی، اُردو) تدریسی نظام میں جاری ہو جائیں تو روشن خیال دور کا آغاز ہو جائے گا اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں خوشگوار مثبت انقلاب آئے گا. ہم مسلم اُمہ کے طور پر اچھی قوموں میں شمار ہوں گے. عبدالکریم ثاقب کے نصب العین سے میں نے یہی اخذ کیا کہ اگر پاکستان کے تعلیمی نظام میں یہ خلاء پورا کر دیا جائے تو اس سے ملک و ملت کی ترقی کے ساتھ ساتھ دُنیا میں اسلام کا حقیقی پہلو روشن ہو گا اور مسلمانوں کا وقار قائم ہو گا. علاوہ ازیں یہ امر بھی زیرِ بحث آئے کہ مروجہ تعلیمی نظام اور بالخصوص دینی مدارس سے تعلیم مکمل کرنے والے نوجوان نسبتاً امورِ مملکت سے نابلد ہوتے ہیں انہیں تعلیمی میدان میں وہ علوم و فنون نہیں سکھائے جاتے جو ان کے کردار و عمل کی راہیں متعین کر سکیں اور نہ ہی انہیں ایسے عملی ذرائع فراہم کئے جاتے ہیں جن سے وہ استفادہ کر کے لیڈرشپ قائم کر سکیں. اگر متوازن مسلمان، اسلام پسند باشعور سچے پاکستانیوں کا کردار امورِ مملکت میں نہیں ہو گا تو ہم بہترین قوم نہیں بن سکیں گے. کیونکہ تعلیمی شعبہ غیر ملکی آقاؤں کے ہاتھ میں ہے. برادر عبدالکریم ثاقب نے واضح کیا کہ مملکت خداداد پاکستان اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت ہے اور ہم بطور قوم اس نعمت کی قدر نہیں کر رہے ہیں. امورِ مملکت جن بھی ہاتھوں میں رہے انہوں دانشمندانہ حکمت عملی اختیار نہیں کی بس اقتدار پر قابض رہ کر اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ اس نعمت کی بے توقیری بلکہ ناشکری کرتے رہے ہیں. کس قدر ستم ظریفانہ صورتحال ہے کہ اب ہماری نوجوان نسل اور لوگ یہاں سے بھاگ جانا چاہتے ہیں علاوہ ازیں دُنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک یہاں سے ذہین و فطین طلباء کو سکالر شپ پر لے جاتے ہیں اور جب وہ وہاں سے تحصیل علم کر لیتے ہیں تو واپس پاکستان نہیں آتے بلکہ وہیں کے باشندے بن کے وہاں خدمات سرانجام دیتے ہیں. حالات اب یہ ہو چکے ہیں کہ اگر کوئی مغربی ملک اوسط درجے کی آسامیوں کےلیے ویزے اوپن کرے تو ہمارے ہاں امیدواروں کی لائن لگ جاتی ہے اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ویزہ مل جائے اور یہاں سے نکل جائیں حالانکہ وہی کام اپنے وطن میں کرنا گوارا نہیں. یہ صرف ہمارے نظام تعلیم کی خرابی ہے. ہمارا تدریسی نصاب انتہائی کمزور ہے جو متوازن اور پیداواری نسل بنانے میں ناکام ہے. ملک کے کرتا دھرتا اپنی سیاسی حیثیت اور ساکھ قائم رکھنے کے کھیل میں مصروف رہے ہیں جس وطن کو اسلام کی لیبارٹری بنانا تھا اب حد یہ ہے کہ لوگ اس ملک میں رہنا بھی نہیں چاہتے. اس وقت ہمارا حل اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسانیت، اسلامیت اور پاکستانیت کی فلاسفی کو لاگو کرتے ہوئے نسلِ نو کو اچھا انسان، بہترین مسلمان، اور باشعور سچا پاکستانی بنایا جائے. جب متوازن اور مثبت کردار و عمل کے افراد امورِ مملکت میں شریک کار ہوں گے تو یقیناً پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے اور روشن مستقبل کا آغاز ہو گا. اس نشست کے آخر پر شرکاء کا اتفاق اور زور اسی بات پر تھا کہ پاکستان کے تعلیمی نظام (سکولوں، دینی مدارس، تعلیمی اداروں) میں ایسے متوازن اور مفید افراد تیار کئے جائیں جو اسلام کے بہترین نمائندے ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے خدمتگار اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں عملی کردار کے حامل ہوں.

 

 

اس نشست میں ہونے والی اہم گفتگو میں نے آپ کے گوش گزار کر دی ہے. برادر عبدالکریم ثاقب میرے مربی اور استاد ہیں میں ان کی دل و جان سے قدر کرتا ہوں. ان کی بےمثال خدمات اور شاندار منفرد اعزازات ہیں. ان کی کامیابیوں کے پیچھے ایثار و قربانی کی لازوال داستان رقم ہے. میں انہیں قریب سے جانتا ہوں. انہوں نے 30 سال کے عرصے میں انسانیت کی بقا اور ملک و قوم کےلیے کتنا ایثار کیا ہے اور مختلف مراحل پر کس طرح کی آزمائشوں اور مشکلات سے گزرے. اب وہ تقریباً 74 برس کے ہو چکے ہیں اور ان کی بےمثال خدمات اور شاندار کامیابیوں کا باب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے جب وہ اپنے پیچھے مڑ کے دیکھتے ہوں گے تو اپنے کارناموں کے مقابلے میں آزمائشیں، مشکلات اور رکاوٹیں ایک خواب کی طرح لگتی ہوں گی اور وہ اپنے آپ کو بےحد پُرسکون محسوس کرتے ہیں. اللہ رب العزت نے انہیں ایک عظیم کام کی سعادت سے نوازا ہے جو ان کے بعد بھی جاری و ساری رہے گا اور ان کےلیے صدقہ جاریہ کا باعث بنے گا..

اللہ نگہبان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!